Showing posts with label Poetry. Show all posts
Showing posts with label Poetry. Show all posts

Monday, June 20, 2011

پھرکبھی لوٹ کر نہ آئیں گے


حوصلوں کی پرواز


Monday, June 13, 2011

یہی حوا کی بیٹی ہے


Saturday, June 11, 2011

ایسالگتا ہے


آنسو


ایک رات اجالو میرے لئے


اب رونے کیلئے اتنے آنسو کہاں سے لاؤں

اُداس ہو بیٹھے ہیں


Wednesday, January 5, 2011

وہ رُت بھی آئی کہ میں پھول کی سہیلی ہوئی

وہ رُت بھی آئی کہ میں پھول کی سہیلی ہوئی
مہک میں چمپا، روپ میں چنبیلی ہوئی

وہ سرد رات کی برکھا سے یوں نہ پیار کروں
یہ رُت تو ہے میرے بچپن کے ساتھ کھیلی ہوئی

زمیں پہ پاؤں نہیں پڑ رہے تکّبر سے
نگار ِ غم کوئی دلہن نئی نویلی ہوئی

وہ چاند بن کے میرے ساتھ ساتھ چلتا رہا
میں اس کے ہجر کی راتوں میں کب اکیلی ہوئی

جو حرفِ سادہ کی صورت ہمیشہ لکھی گئی
وہ لڑکی کس طرح تیرے لئے پہیلی ہوئی

پروین شاکر

تجھ سے تو کوئی گلہ نہیں ہے

تجھ سے تو کوئی گلہ نہیں ہے
قسمت میں میری، صلہ نہیں ہے

بچھڑے تو حال نجانے کیا ہو
جو شخص ابھی ملا نہیں ہے

جینے کی تو آرزو ہی کب تھی
مرنے کا بھی حوصلہ نہیں ہے

جو زیست کو معتبر بنا دے
ایسا کوئی سلسلہ نہیں ہے

خوشبو کا حساب ہو چکا ہے
اور پھول ابھی کھلا نہیں ہے

سرشاری رہبری میں دیکھا
پیچھے میرا قافلہ نہیں ہے

اک ٹھیس پہ دل کا پھوٹ بہنا
چھونے میں تو آبلہ نہیں ہے !

پروین شاکر

یوں حوصلہ دل نے ہارا کب تھا

یوں حوصلہ دل نے ہارا کب تھا
سرطان میرا ستارا کب تھا

لازم تھا گزرنا زندگی سے
بِن زہر پیئے گزارا کب تھا

کچھ پل مگر اور دیکھ سکتے
اشکوں کو مگر گوارا کب تھا

ہم خود بھی جُدائی کا سبب تھے
اُس کا ہی قصور سارا کب تھا

اب اور کے ساتھ ہے تو کیا دکھ
پہلے بھی وہ ہمارا کب تھا

اِک نام پہ زخم کھل اٹھے تھے
قاتل کی طرف اشارا کب تھا

آئے ہو تو روشنی ہوئی ہے
اس بام پہ کوئی تارا کب تھا

دیکھا ہوا گھر تھا پر کسی نے
دُلہن کی طرح سنوارا کب تھا

پروین شاکر

عکس خوشبو ہوں، بکھرنے سے نہ روکے کوئی

عکس خوشبو ہوں، بکھرنے سے نہ روکے کوئی
اور بکھر جاؤں تو مجھ کو نہ سمیٹے کوئی

کانپ اُٹھتی ہوں یہی سوچ کہ تنہائی میں
میرے چہرے پہ تیرا نام نہ پڑھ لے کوئی

جس طرح خواب میرے ہو گئے ریزہ ریزہ
اس طرح سے نہ کبھی ٹوٹ کے بکھرے کوئی

میں تو اس دن سے ہراساں ہوں کہ جب حکم ملے
خشک پھولوں کو کتابوں میں نہ رکھے کوئی

اب تو اس راہ سے وہ شخص گزرتا بھی نہیں
اب کس اُمید پہ دروازے سے جھانکے کوئی

کوئی آہٹ، کوئی آواز، کوئی چاپ نہیں
دِل کی گلیاں بڑی سنسان ہیں آئے کوئی

پروین شاکر

اجنبی

اجنبی


کھوئی کھوئی آنکھیں
بکھرے بال
شکن آلود قبا
لُٹا لُٹا انسان !
سائے کی طرح سے میرے ساتھ رہا کرتا لیکن
کِسی جگہ مل جائے تو
گبھرا کر مُڑ جاتا ہے
اور پھر دور سے جاکر مجھ کو تکنے لگتا ہے
کون ہے یہ

پروین شاکر

الوداعیہ

الوداعیہ


وہ جا چکا ہے
مگر جدائی سے قبل کا
ایک نرم لمحہ
ٹھہر گیا ہے
مِری ہتھیلی کی پشت پر
زِندگی میں
پہلی کا چاند بن کر !

پروین شاکر

موسم اَن پڑھ ہوتے ہیں

لڑکی
یہ لمحے بادل ہیں
گزر گئے تو ہاتھ کبھی نہیں آئیں گے
ان کی لمس کو پیتی جا
قطرہ قطرہ بھیگتی جا
بھیگی جا جب تک ان میں نم ہے
اور تیری اندر کی مٹی پیاس ہے
مجھ سے پوچھ
کہ بارش کو واپس آنے کا رستہ کبھی یاد نہ ہوا
بال سوُکھانے کے موسم اَن پڑھ ہوتے ہیں !

پروین شاکر

نئی آنکھ کا پُرانا خواب

نئی آنکھ کا پُرانا خواب
آتش دان کے پاس
گُلابی حّدت کے ہالے میں سمٹ کر
تجھ سے باتیں کرتے ہوئے
کبھی کبھی تو ایسا لگا ہے
جیسے اُوس میں بھیگی گھاس پہ
اُس کے بازو تھامے ہوئے
میں پھر نیند میں چلنے لگی ہوں !

پروین شاکر

کتھارس

میرے شانوں پہ سر رکھ کر
آج
کسی کی یاد میں وہ جی بھر کہ رویا !!!

پروین شاکر

کشف

ہونٹ بے بات ہنسے
زُلف بے وجہ کُھلی
خواب دکھلا کہ مجھے
نیند کس سمت چلی
خُوشبو لہرائی میرے کان میں سرگوشی کی
اپنی شرمیلی ہنسی میں نے سُنی
اور پھر جان گئی
میری آنکھوں میں تیرے نام کا تارا چمکا !!!

پروین شاکر

کانچ کی سُرخ چوڑی

کانچ کی سُرخ چوڑی
میرے ہاتھ میں
آج ایسے کھنکنے لگی
جیسے کل رات شبنم سے لکھی ہوئی
ترے ہاتھوں کی شوخیوں کو
ہواؤں نے سَر دے دیا ہو ۔۔۔

پروین شاکر

بس اتنا یاد ہے

بس اتنا یاد ہے
دُعا تو جانے کون سی تھی
ذہن میں نہیں
بس اتنا یاد ہے
کہ دو ہتھیلیاں ملی ہوئی تھیں
جِن میں ایک میری تھی
اور ایک تمھاری