Wednesday, January 5, 2011

یوں حوصلہ دل نے ہارا کب تھا

یوں حوصلہ دل نے ہارا کب تھا
سرطان میرا ستارا کب تھا

لازم تھا گزرنا زندگی سے
بِن زہر پیئے گزارا کب تھا

کچھ پل مگر اور دیکھ سکتے
اشکوں کو مگر گوارا کب تھا

ہم خود بھی جُدائی کا سبب تھے
اُس کا ہی قصور سارا کب تھا

اب اور کے ساتھ ہے تو کیا دکھ
پہلے بھی وہ ہمارا کب تھا

اِک نام پہ زخم کھل اٹھے تھے
قاتل کی طرف اشارا کب تھا

آئے ہو تو روشنی ہوئی ہے
اس بام پہ کوئی تارا کب تھا

دیکھا ہوا گھر تھا پر کسی نے
دُلہن کی طرح سنوارا کب تھا

پروین شاکر

0 comments:

Post a Comment