Wednesday, January 5, 2011

وہ رُت بھی آئی کہ میں پھول کی سہیلی ہوئی

وہ رُت بھی آئی کہ میں پھول کی سہیلی ہوئی
مہک میں چمپا، روپ میں چنبیلی ہوئی

وہ سرد رات کی برکھا سے یوں نہ پیار کروں
یہ رُت تو ہے میرے بچپن کے ساتھ کھیلی ہوئی

زمیں پہ پاؤں نہیں پڑ رہے تکّبر سے
نگار ِ غم کوئی دلہن نئی نویلی ہوئی

وہ چاند بن کے میرے ساتھ ساتھ چلتا رہا
میں اس کے ہجر کی راتوں میں کب اکیلی ہوئی

جو حرفِ سادہ کی صورت ہمیشہ لکھی گئی
وہ لڑکی کس طرح تیرے لئے پہیلی ہوئی

پروین شاکر

0 comments:

Post a Comment