Sunday, December 5, 2010

سوچتا ہوں کہ اسے نیند بھی آتی ہوگی

یا مری طرح فقط اشک بہاتی ہوگی
وہ مری شکل مرا نام بھلانے والی
اپنی تصویر سے کیا آنکھ ملاتی ہوگی
اس زمیں پر بھی ہے سیلاب مرے اشکوں کا
مرے ماتم کی صدا عرش ہلاتی ہوگی
شام ہوتے ہی وہ چوکھٹ پہ جلا کر شمعیں
اپنی پلکوں پہ کئی خواب سلاتی ہوگی
اس نے سلوا بھی لئے ہوں گے سیا ہ رنگ لباس
اب محرم کی طرح عید مناتی ہوگی
ہوتی ہوگی مرے بوسے کی طلب میں پاگل
جب بھی زلفوں میں کوئی پھول سجاتی ہوگی
میرے تاریک زمانے سے نکلنے والی
روشنی تجھ کو مری یاد دلاتی ہوگی
دل کی معصوم رگیں خود ہی سلگتی ہوں گی
جونہی تصویر کا کونہ وہ جلاتی ہوگی
روپ دے کر مجھے اس میں کسی شہزادے کا
اپنے بچوں کو کہانی وہ سناتی ہو گی

0 comments:

Post a Comment